اس سورہ کا نام الناس ہے۔ سورہ الفلق اور الناس دونوں سورتوں کا نزول بیک وقت ہوا۔ ان کے مفہوم، معنیٰ اور مقصد کے اعتبار سے بھی ان میں اس قدر اتصال ہے کہ انہیں الگ الگ کرنا بہت دشوار ہے۔ اس لیے انہیں معوذتین کے ایک نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ سورہ الناس میں ایک رکوع اور چھ آیتیں ہیں۔
اس سورہ کا نام الناس ہے۔ سورہ الفلق اور الناس دونوں سورتوں کا نزول بیک وقت ہوا۔ ان کے مفہوم، معنیٰ اور مقصد کے اعتبار سے بھی ان میں اس قدر اتصال ہے کہ انہیں الگ الگ کرنا بہت دشوار ہے۔ اس لیے انہیں معوذتین کے ایک نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ سورہ الناس میں ایک رکوع اور چھ آیتیں ہیں۔
اس بات پر تو سب علماء متفق ہیں کہ سورہ الفلق اور الناس ایک ساتھ نازل ہوئیں، لیکن کہاں نازل ہوئیں؟ اس میں دو قول ہیں: حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ، عطاء، عکرمہ اور جابر رضی اللہ عنہم کی یہ رائے ہے کہ ان کا نزول مکہ میں ہوا۔ حضرت ابن عباس کے ایک قول سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ لیکن قتادہ، ابو صالح اور ابن عباس کے علاوہ علماء کی ایک جماعت کا یہ قول ہے کہ یہ دونوں سورتیں مدنی ہیں۔ بعض مفسرین نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے۔ لیکن احادیث مرفوعہ دوسرے قول کی تائید کرتی ہیں، اس لیے مرفوع حدیث کے مقابلہ میں کسی کے قول کو ترجیح دینا بہت مشکل ہے۔ ایک مرفوع حدیث جسے مسلم، ترمذی، نسائی، احمد بن حنبل علیہم الرحمۃ نے حضرت عقبہ بن عامر سے یوں رویات کیا ہے۔ عقبہ کہتے ہیں ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
الم تر آیات انزلت اللیلة لم یر مثلهن؟ اعوذ برب الفلق و اعوذ برب الناس.
کیا تمہیں خبر ہے اللہ تعالیٰ نے آج رات مجھ پر ایسی آیتیں نازل فرمائی ہیں جن کی پہلے مثال نظر نہیں آتی؟ وہ ہیں اعوذ برب الفلق اور اعوذ برب الناس۔
عقبہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ ان کو حضور کا یہ ارشاد کہ ’ آج رات مجھ پر ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں، جن کی مثال پہلے نظر نہیں آتی۔‘ یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ ان سورتوں کا نزول مدینہ طیبہ میں ہوا۔ دوسری حدیث جو اس قول کی تائید کرتی ہے، وہ ہے جس میں ان کے شان نزول کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اس حدیث کو آئمہ کبار امام نسفی رحمۃ اللہ علیہ، بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔ ان کے علاوہ شاح حدیث میں سے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ بدر الدین عینی نے اپنے اپنے اسفار جلیلہ میں لکھا ہے کہ سات ہجری میں جب ایک یہودی لبید بن اعصم نے جادو کیا۔ اس وقت اس جادو کے اثرات کو کالعدم کرنے کے لیے یہ دو سورتیں نازل ہوئیں۔ ان آئمہ حدیث کی تحقیق کے بعد اور حضرت عقبہ کی مرفوع روایت کے بعد مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لیے ان سورتوں کے مکی ہونے پر اصرار کرنا درست نہیں۔ اس لیے یہ مدنی سورتیں ہیں۔
نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام پر کیا جادو کیا گیا؟ اور ذات اقدس واطہر پر اس کا اثر کیا ظاہر ہوا؟
یثرب کے یہودیوں کو روزِ اول سے ہی جو بلاوجہ عداوت اور حسد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ تھا۔ جیسے جیسے اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کی شان کو بلند کرتا، فتوحات کے دروازے کھلتے جاتے، ایسے ایسے ہی ان کی عداوت کے شعلے بھڑکنے لگتے۔ 7ھ میں جب حدیبیہ سے حضور بخیریت واپس تشریف لائے تو خیبر کے یہودیوں کا ایک وفد مدینہ کے ایک مشہور جادوگر لبید ابن اعصم کے پاس آیا۔ بعض مؤرخین نے اسے یہودی کہا ہے لیکن یہ درحقیقت انصار کے ایک قبیلہ بنی زریق کا ایک فرد تھا۔ ممکن ہے اس نے یہودی مذہب اختیار کرلیا ہو اس لیے اسے یہودی کہا گیا ہو۔ یہودیوں کے وفد نے جادوگر لبید ابن اعصم سے کہا کہ خیبر کے سیاسی طور پر ہم نے رسول اللہ کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، سازشیں کیں، منصوبے بنائے، مشرک قبائل کو ان کے خلاف بھڑکایا لیکن ناکام رہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں جتنے ماہر جادوگر تھے، انہوں نے بھی بڑے جتن کیے، بڑی زور آزمائی کی لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ ہمارے اس علاقہ میں تمہارے سحرکی دھوم مچی ہوئی ہے۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ہم تیرے پاس آئے ہیں۔ اگر توں ہماری امداد کرے تو یہ مشکل آسان ہوسکتی ہے۔ انہوں نے اس کی خدمت میں بھاری نذرانہ بھی پیش کیا۔ چنانچہ اس نے حامی بھر لی۔
ایک یہودی لڑکا حضور کی خدمت میں رہا کرتا تھا کسی طرح ورغلا کر اس سے حضور کی کنگھی کا ایک ٹکڑا اور چند موئے مبارک حاصل کرلیے۔ ان پر جادو کیا گیا اور ان چیزوں کو نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھ کر بنی زریق کے ایک کنویں کی تہہ میں ایک بھاری پتھر کے نیچے دبا دیا گیا۔ اس کنویں کا نام ’ذروان‘ یا ’ذی اروان‘ بتایا جاتا ہے۔ بعض نے اس کا نام ’بئر اریس‘ بھی لکھا ہے۔ چھ ماہ گزرنے کے بعد معمولی اثر ظاہر ہونے لگا۔ آخری چالیس دن زیادہ تکلیف کے تھے۔ ان میں سے بھی آخری تین دن تکلیف اپنی نہایت کو پہنچ گئی۔ اس جادو سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کس قسم کی تکلیف محسوس ہوتی تھی؟ اس کے بارے میں بھی تصریحات موجود ہیں۔ علامہ سیوطی لکھتے ہیں:
کان النبی صلی الله علیه وآله وسلم یذوب ولا یدری ماوجعه.
حضور کی طبیعت گھٹنے لگی، نقاہت بڑھنے لگی لیکن بظاہر اس کی کوئی وجہ معلوم نہ ہوتی۔
علامہ آلوسی لکھتے ہیں:
حتی لیخیل الیه انه فعل الشیئ ولم یکن فعله. (روح المعانی)
ایسا کام جو نہ کیا ہوتا، اس کے بارے میں حضور کو خیال ہوتا کہ کرلیا گیا ہے۔
کتب حدیث میں اس جادو کے اثرات کے بارے میں جتنی روایات ملتی ہیں۔ ان کا یہی نچوڑ ہے کہ جسمانی طور پر نقاہت وکمزوری محسوس ہوتی، لیکن ایسی کوئی ضعیف سے ضعیف روایت بھی موجود نہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فرائض نبوت کی ادائیگی میں کبھی بال برابر فرق آیا ہو۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نماز کے ارکان میں تقدیر و تاخیر سرزد ہوئی ہو یا تلاوت قرآن کے وقت نسیان طاری ہوگیا ہو یا مملکت اسلامیہ کی توسیع اور استحکام یا اسلام کی تبلیغ میں کوئی معمولی سا رخنہ بھی پیدا ہوا ہو۔
جب تکلیف زیادہ بڑھی تو حضور علیہ الصلوہ والسلام نے بارگاہ الٰہی میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ اسی رات حضور کو خواب میں حقیقت حال سے آگاہ فرمادیا گیا۔ چنانچہ حضور نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ اے عائشہ! میں نے اپنے رب سے جس بات کے بارے میں دریافت کیا تھا‘ میرے خدا نے مجھے اس کے متعلق بتادیا ہے۔ حضرت عائشہ نے عرض کی یا رسول اللہ کیا بتا یا گیا ہے؟ ارشاد ہوا: رات کو خواب میں دو آدمی میرے پاس آئے ایک میرے سرہانے بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے نزدیک۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ جبرائیل اور میکائیل تھے۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا: انہیں کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: انہیں جادو کیا گیا ہے۔ پوچھا کس نے کیا ہے؟ جواب ملا لبید بن اعصم نے۔ پوچھا کس چیز میں؟ بتایا: کنگھی کے ایک ٹکڑے کو اور چند بالوں کو نر کھجور کے خوشہ کے پردے میں رکھ کر۔ پوچھا کہاں رکھا ہے؟ بتایا: ذی اروان کے کنوئیں کی تہ میں ایک پتھر کے نیچے۔ پوچھا اب کیا کرنا چاہیے۔ بتایا: اس کنوئیں کا سارا پانی نکال دیا جائے پھر اس پتھر کے نیچے سے ان چیزوں کو نکالاجائے۔
حضور علیہ الصلوہ والسلام نے فوراً حضرت سیدنا علی، عمار بن یاسر اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم کو اس مقصد کے لیے اس کنویں کی طرف بھیجا انہوں نے پانی نکال کر اس کنویں کو خشک کردیا۔ اتنے میں حضور خود بھی وہاں تشریف لے گئے۔ پتھر کو اٹھایا تو اس کے نیچے وہ غلاف نکلا، اسے کھولا تو اس کے اندر کنگھی کا ایک ٹکڑا، چند بال جو تانت کے ایک ٹکڑے میں بندھے ہوئے تھے اور اس تانت میں گیارہ گرہیں لگی ہوئیں تھیں۔ اسی اثنا میں حضرت جبرائیل حاضر ہوئے اور یہ دو سورتیں پڑھ کر سنائیں اور عرض کیا کہ آپ ان سورتوں کی ایک ایک آیت پڑھتے جائیں اور ایک ایک گرہ کھولتے جائیں اور ایک ایک سوئی نکالتے جائیں۔ چنانچہ دونوں سورتوں کی گیارہ آیتیں پڑھی گئیں ان کی تلاوت سے گیارہ گرہیں کھلیں اور ساری سوئیاں نکل گئیں۔ اس طرح حضور علیہ الصلوہ والسلام کی طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی اور جادو کا سارا اثر زائل ہوگیا۔
صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ اجازت ہو تو اس خبیث کا سر قلم کردیا جائے؟ حضرت سید عالم نے ارشاد فرمایا:
اما ان فقد شفانی الله واکره ان اثیر علیٰ الناس شرا۔ً.
مجھے تو اللہ تعالیٰ نے شفا بخش دی ہے۔ میں اپنے لیے لوگوں مں فتنہ کی آگ بھڑکانا نہیں چاہتا۔
سبحان اللہ رحمت للعالمینی کی کیا شان ہے! اپنی ذات کے لیے اپنی جان کے دشمنوں سے بھی کبھی انتقام نہیں لیا۔
ان واقعات پر چند عقلیت پسندوں کا اعتراض ہے کہ ان روایات کو صحیح تسلیم کیا جائے تو اس سے منصب نبوت کی توہین ہوتی ہے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو حیثیتیں تھیں: ایک حیثیت نبوت اور دوسری حیثیت بشریت۔ عوارض بشری کا ورود ذات اقدس پر ہوتا رہتا تھا۔ بخار، درد، چوٹ لگنا، دندانِ مبارک کا شہید ہونا، طائف میں پنڈلیوں کا لہولہان ہونا اور احد میں جبین سعادت کا زخمی ہونا۔ یہ سب واقعات تاریخ کے صفحات کی زینت ہیں۔ ان عوارض سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رسالت اور حیثیت نبوت پر قطعا کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح یہاں بھی جادو کا اثر حضور کی جسمانی صحت تک محدود تھا، رسالت کا کوئی پہلو قطعاً اس سے متاثر نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا کہ اس جادو سے حضور کوئی آیت بھول جاتے یا الفاظ میں تقدیم وتاخیر کردیتے یا قرآن میں اپنی طرف سے کوئی جملہ بڑھا دیتے یا نماز کے ارکان میں ردو بدل ہوجاتا تو اسلام کے بدخواہ اتنا شور و غل مچاتے کہ الامان والحفیظ! بطلان رسالت کے لیے انہیں ایک ایسا مہلک ہتھیار دستیاب ہوجاتا کہ اس کے بعد انہیں دعوت اسلامی کو ناکام کرنے کے لیے مزید کسی ہتھیار کی ضرورت نہ رہتی، لیکن اس قسم کا کوئی واقعہ کسی حدیث یا تاریخ کی کتاب میں موجود نہیں۔ دشمنان اسلام نے آج تک جتنی کتابیں پیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں لکھی ہیں ان میں بھی اس قسم کا کوئی واقعہ درج نہیں۔ معلوم ہوا کہ لبید یہودی کے جادو کا اثر فقط اس حد تک ہوا کہ صحت گرامی متأثر ہوئی۔
جادو سے کسی چیز کی حقیقت بدل جاتی ہے یا فقط نظر بندی کے طور پر چیز ہوتی کچھ ہے اور دکھائی کچھ دیتی ہے؟ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس سے لوگوں کا متاثر ہونا ایک یقینی چیز ہے۔ ساحران فرعون کا تذکرہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمایا گیا ہے۔ نص قرآنی سے یہ چیز ثابت ہے کہ لوگ ان رسیوں کو سانپ خیال کرنے لگے۔ سانپوں کی طرف انہیں لہراتے ہوئے دیکھ کر وقتی طور پر موسیٰ علیہ السلام بھی خائف و ہراساں ہوگئے۔
جھاڑ پھونک کا رواج ہر انسانی معاشرہ میں قدیم ازمنہ سے موجود ہے۔ اس مقصد کے لیے جو منتر، طلسم یا نقوش ان کے ہاں رواج پذیر تھے، ان کی دیویاں، دیوتاؤں کے نام، شیطانی قوتوں سے استمداد، آسامانی کواکب و سیارات سے استغاثہ وغیرہ عام تھا۔ نیز وہ ان چیزوں کو مؤثر حقیقی اور فاعل مستقل یقین کرتے تھے۔ اسلام نے شرک کو بیخ و بن سے اکھیڑ کر رکھ دیا۔ ان کے اس عقیدہ کے بطلان کو طشت ازبام کردیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی دیوی، دیوتا، کوئی چاند تارا یا سورج مؤثر حقیقی ہوسکتا ہے۔ اس لیے یہ تو گمان ہی نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام کسی ایسے منتر یا جھاڑ پھونک کی اجازت دے جس میں شرک یا شرکیہ عقائد کا شائبہ تک بھی پایا جاتا ہو۔ اس لیے ایسے تمام منتر، طلسم نقوش تعویذات وغیرہ اسلام میں قطعاً حرام اور ممنوع ہیں۔ ن احادیث میں دم کرنے، جھاڑ پھونک کرنے وغیرہ کی ممانعت کی گئی ہے۔ ان جملہ احادیث سے اسی قسم کے شرکیہ اعمال مراد ہیں۔ لیکن ایسا دم یا تعویذ جس میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی میں سے کوئی اسم مبارک، کوئی آیت قرآنی یا سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پاک سے نکلا ہوا کوئی جملہ ہو یا جس نقش میں یا دم میں شرکیہ بات نہ ہو اس کا کرنا جائز ہے۔ حضور خود بھی اپنے آپ کو دم فرمایا کرتے اور صحابہ کرام پر بھی دم کرتے اور حسنین کریمین کو تو خصوصی دم فرمایا کرتے۔ عہد رسالت میں اور اس کے بعد صحابہ کا بھی یہ معمول تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک پاکان امت کا بھی یہ دستور ہے۔ آپ چند شواہد ملاحظہ فرمائیے :
سب سے پہلی دلیل تو ان دو سورتوں کا نزول ہے اور ان کے پڑھنے کی برکت سے جادو کی تاثیر کا ختم ہوجانا ہے۔ حضور علیہ الصلوہ والسلام کا یہ معمول تھا کہ ہر شب آرام کرنے سے پہلے آخری تینوں قل پڑھتے ، اپنے مبارک ہاتھوں پر دم فرماتے پھر اپنے سارے جسم پر انہیں پھیر لیتے۔ یہ معمول حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے جو خود عینی شاہد ہیں۔ جن محدثین نے اس روایت کو اسناد صحیحہ سے نقل کیا ہے۔ حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی جاتی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین کو یہ پڑھ کر دم فرمایا کرتے: ’اعیذ کما بکلمات الله التامة من کل شیطان وهامة ومن کل عین لامة.‘
حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی نے ایک روز عرض کیا: یا رسول اللہ! جب سے مسلمان ہوا ہوں مجھے شدید درد ہوتا ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ جان لیوا ثابت ہوگا۔ حضور نے فرمایا: درد کی جگہ پر اپنا دایاں ہاتھ رکھو، پھر تین بار بسم اللہ الخ اور مرتبہ یہ پڑھتے ہوئے درد کی جگہ پر ہاتھ رکھو: ’اعوذ بالله وقدرته من شر ما اجد و احاذر‘
مسند امام احمد اور طحاوی میں طلق بن علی کی روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ کی موجودگی میں بچھو نے ڈنگ مارا۔ حضور نے مجھے دم فرمایا اور دست مبارک پھیرا۔
صحیح مسلم میں ابو سعید الخدری (رض) کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوئے۔ عیادت کے لیے جبرئیل امین حاضر ہوئے۔ پوچھا: جان عالم! کیا آپ بیمار ہوگئے؟ فرمایا ہاں۔ جبرئیل نے یہ پڑھ کر دم کیا:
باسم الله ارقیک من کل شئ یوذیک من شرکل نفس او عین حاسد، الله یشفیک، باسم الله ارقیک.
میں اللہ کا نام لے کر آپ کو دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو آپ کو اذیت دے اور ہر نفس اور حاسد کی نظر سے۔ اللہ آپ کو شفا دے۔ میں اللہ کا نام لے کر آپ کو دم کرتا ہوں۔
مسند امام احمد میں ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حجرہ میں رونق افروز ہوئے۔ میرے پاس شفاء نامی ایک خاتون بیٹھی تھی جو نمہ (ذباب) کا دم کیا کرتی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شفاء یہ دم حفصہ کو بھی سکھا دو۔ خود شفاء بنت عبداللہ کہتی ہیں کہ مجھے حضور نے فرمایا کہ تم نے حفصہ کو جس طرح لکھنا پڑھنا سکھایا ہے نملہ کا دم بھی سکھا دو۔ (مسند امام احمد، ابو داوءد ، نسائی)۔
صحیح مسلم میں عوف ابن مالک اشجعی کی یہ روایت مذکور ہے کہ ہم نے حضور کی خدمت میں عرض کیا یارسول اللہ! ہم جاہلیت میں جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے۔ اب اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو پڑھ کر تم دم کیا کرتے تھے وہ مجھے سناؤ۔ جھاڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جب تک اس میں شرک نہ ہو۔
حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے منع فرمادیا۔ پھر حضرت عمرو ابن حزم کے خاندان کے لوگ آئے اور عرض کیا کہ ہمارے پاس ایک عمل تھا جس سے ہم بچھو، سانپ کے کاٹے کو دم کیا کرتے تھے مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کاموں سے منع فرمادیا ہے۔ پھر انہوں نے وہ دم پڑھ کر سنایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس میں تو مَیں کوئی مضائقہ نہیں پاتا، تم میں سے جو شخص اپنے کسی بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے وہ ضرور پہنچائے۔ (مسلم، مسند احمد، ابن ماجہ)
یہاں اس موضوع سے متعلق کثیر التعداد احادیث میں سے صرف چند احادیث پیش کی ہیں۔ طالب حق کے لیے اس میں کفایت ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر چیز اسی وقت نفع پہنچاتی ہے جب اذنِ الٰہی ہو۔ اس کے علاوہ کوئی چیز بھی اثر نہیں کرتی۔ اگر جڑی بوٹیاں، گولیاں، شربت، معجونیں اور ٹیکے اذنِ الٰہی سے صحت و عافیت کا سبب بن جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ آیات قرآنی اور فرمودات رسالت، اذنِ الٰہی سے کیوں مؤثر نہیں ہوسکتے؟
اس کے لیے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے استدلال کافی ہے جو امام بخاری، امام مسلم ، ترمزی اور دیگر کتب احادیث میں منقول ہے۔ اس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مہم پر اپنے چند صحابہ کو بھیجا جن میں حضرت ابو سعید خدری بھی تھے۔ ان کا گزر ایک بستی سے ہوا جہاں ایک عرب قبیلہ سکونت پذیر تھا۔ انہوں نے اس قبیلہ سے اپنے لیے کھانے کا مطالبہ کیا۔ لیکن انہوں نے انہیں کوئی چیز دینے سے انکار کردیا۔ چنانچہ مسلمانوں نے بغیر کچھ کھائے رات بسر کی۔ اسی اثنا میں قبیلہ کے سردار کو کسی زہریلے بچھو نے ڈنگ مار دیا۔ جب اس کی تکلیف حد سے زیادہ بڑھی تو وہ لوگ مسلمانوں کے پاس آئے اور آکر کہا کہ ہمارے سردار کو بچھو نے کاٹا ہے وہ درد سے تلملا رہا ہے، اگر تم لوگوں کے پاس کوئی دوا ہو یا کوئی دم کرسکتا ہو تو وہ آکر اسے دم کرے۔ حضرت ابو سعید نے کہا کہ ہمارے پاس اس کا علاج تو ہے لیکن تم نے بڑی بےمروتی کا سلوک کیا ہے، ہمیں کھانا تک نہیں دیا اس لیے جب تک تم ہمیں کچھ معاوضہ دینا طے نہ کرلو اس وقت تک ہم اس کا علاج نہیں کریں گے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ اگر ہمارے سردار کو آرام آگیا تو ہم تمہیں بکریوں کا ایک ریوڑ دیں گے۔ حضرت ابو سعید گئے اور سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد اپنا لعاب دہن اس پر ملا۔ درد زائل ہوگیا اور ان کا سردار بالکل تندرست ہوگیا۔ قبیلے والوں نے وعدہ کے مطابق ریوڑ جس میں تیس بکریاں تھیں مسلمانوں کو دیا۔
جب حضرت ابوسعید وہ ریوڑ لے کر مسلمانوں کے پاس واپس آئے تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جب تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسئلہ دریافت نہ کرلیں اس وقت تک ہمیں یہ بکریاں استعمال میں نہیں لانی چاہئیں۔ جب مہم سے فارغ ہونے کے بعد یہ حضرات مدینہ طیبہ واپس پہنچے تو سارا قصہ عرض خدمت کیا۔ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا: تمہیں یہ کس طرح پتہ چلا کہ یہ سورت پڑھ کر دم کیا جاتا ہے؟ بکریاں لے لو اور اس میں سے میر احصہ بھی نکالو۔
1
|
2
|
3
|
4
|
5
|
6
|
7
|
8
|
9
|
10
|
11
|
12
|
13
|
14
|
15
|
16
|
17
|
18
|
19
|
20
|
21
|
22
|
23
|
24
|
25
|
26
|
27
|
28
|
29
|
30
|
31
|
32
|
33
|
34
|
35
|
36
|
37
|
38
|
39
|
40
|
41
|
42
|
43
|
44
|
45
|
46
|
47
|
48
|
49
|
50
|
51
|
52
|
53
|
54
|
55
|
56
|
57
|
58
|
59
|
60
|
61
|
62
|
63
|
64
|
65
|
66
|
67
|
68
|
69
|
70
|
71
|
72
|
73
|
74
|
75
|
76
|
77
|
78
|
79
|
80
|
81
|
82
|
83
|
84
|
85
|
86
|
87
|
88
|
89
|
90
|
91
|
92
|
93
|
94
|
95
|
96
|
97
|
98
|
99
|
100
|
101
|
102
|
103
|
104
|
105
|
106
|
107
|
108
|
109
|
110
|
111
|
112
|
113
|
114
|