اس سورہ کا نام المسد اور اللہب ہے۔ اس میں ایک رکوع اور پانچ آیتیں ہیں۔ یہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ قرآن کریم میں نام لے کر ابولہب کا ذکر نہیں کیا گیا حالانکہ مکہ و مدینہ اور دیگر قبائل عرب میں حضور کے دشمنوں اور دین کے بدخواہوں کی کمی نہ تھی۔ ان کی اذیت رسانیاں، دلآزاریاں اور اسلام کو بحیثیت دین ناکام کرنے کی کوششیں ابولہب کی سازشوں سے سے کسی طرح کم نہ تھیں۔ پھر اس کی کیا خصوصیت ہے جس کے باعث اس کا نام لے کر اس کی گوشمالی کی گئی۔
اس سورہ کا نام اللہب ہے۔ اس میں ایک رکوع، پانچ آیتیں، بیس کلمات اور ستتر حروف ہیں۔
یہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ جب حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ ’وانذر عشیرتک الاقربین‘ یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔ اس ارشادِ الٰہی کی تعمیل کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہوئے اور یاصباحا بلند آواز سے کہا۔ عرب کادستور تھا کہ جب کوئی ناگہانی آفت آجاتی اور لوگوں کو امداد کے لیے بلانا مقصود ہوتا تو ’یا صباحا‘ کے الفاظ سے ندا کرتے لوگوں نے جب یہ ندا سنی، تو بھاگنے ہوئے صفا کی پہاڑی کے دامن میں آپہنچے اور جو خود حاضر ہونے سے قاصر تھے، انہوں نے حقیقت حال دریافت کرنے کے لیے اپنے نمائندے بھیجے۔ جب سارے قریشی قبیلے جمع ہوگئے تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ سلم نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں یہ بتاؤں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے دشمنوں کا گھڑ سوار دستہ تم پر حملہ کرنے کے لیے آرہا ہے، تو کیا تم میری تصدیق کروگے؟ سب نے بیک زبان جواب دیا: بےشک ہم آپ کی تصدیق کریں گے، کیونکہ ہم نے آج تک آپ کی زبان سے سچ ہی سنا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اگر تم شرک سے باز نہ آئے، تو خدا کا عذاب تمہیں نیست ونابود کردے گا۔ ابولہب‘ جو حضور کا چچا تھا اس نے انگلی اٹھا کر اشارہ کیا اور گستاخی کرتے ہوئے بولا: تباً لک اما جمعتنا الا لهٰذا. اللہ تعالیٰ کو اس گستاخ کی گستاخی، اپنے حبیب کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں سخت ناگوار گزری اور انتہائی غضب اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں جن ہاتھوں کی ایک انگلی بےادبی کے لیے اٹھی ہے وہ دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں۔ انہیں کبھی اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہو۔ یہ بددعا ہے۔ فرمایا کہ وہ تباہ وبرباد ہوگیا، وہ ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا، اس کا جسم ریزہ ریزہ کر دیا گیا اور جو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا اسے پورا ہونے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ بزدلی کے باعث بدر کی جنگ میں یہ شریک نہ ہوا، لیکن بدر کی عبرت ناک شکست پر ابھی صرف ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ اس کے جسم پر ایک زہریلا چھالا (العدسہ) نمودار ہوا جو چند دنوں میں اس کے سارے جسم پر پھیل گیا۔ ہر جگہ سے بدبودار پیپ بہنے لگی۔ گوشت گل گل کر گرنے لگا۔ اس کے بیٹوں نے جب دیکھا کہ اسے ایک متعدی بیماری لگ گئی ہے، تو انہوں نے اس کو اپنے گھر سے باہر نکال دیا اور تڑپتے تڑپتے اس نے جان دے دی۔ اب بھی اس کی نعش کو ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی عزیز اس کے قریب نہ گیا۔ تین دن تک اس کی لاش پڑی رہی۔ جب اس کے تعفن اور بدبو سے لوگ تنگ آگئے اور اس کے بیٹوں کو لعنت ملامت شروع کی، تب انہوں نے چند حبشی غلاموں کو اس کی لاش ٹھکانے لگانے پر مقرر کیا۔ انہوں نے ایک گڑھا کھودا اور لکڑیوں سے اس کی لاش کو دھکیل کر اس گڑھے میں پھینک دی ا اور اوپر سے مٹی ڈال دی۔ اتنے بڑے قوم کے سردار اور مکہ کے چوٹی کے چار رئیسوں میں سے ایک رئیس کا یہ حشر اللہ تعالیٰ کے غضب ہی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ اولاد، اپنے باپ کو یوں کسمپرسی کے عالم میں نہیں چھوڑا کرتی، مرنے کے بعد اس کی لاش کو یوں گلتے سڑتے نہیں دیکھ سکتی، لیکن جب اللہ تعالیٰ کا غضب آتا ہے، تو اولاد کے دل میں محبت یا ظاہر داری کے جذبات بھی ختم ہوجاتے ہیں اور اس کا وہی حشر ہوتا ہے جو اس گستاخ بارگاہ نبوت کا ہوا۔ اس لیے قرآن کریم میں اس کا نام لے کر لعنت کی بوچھاڑ کی گئی۔ ابولہب اس کی کنیت تھی اور اسی سے وہ زیادہ مشہور تھا۔ عبدالعزی اس کا نام تھا۔ یہ ناپاک نام اس قابل نہ تھا کہ اس کو قرآن میں ذکر کیا جاتا۔ اس لیے اس کے نام کے بجائے اس کی کنیت ابو لہب ذکر کی گئی تاکہ لوگوں کو اس کے دوزخی ہونے کا بھی پتہ چل جائے۔
قرآن کریم میں نام لے کر ابولہب کا ذکر نہیں کیا گیا حالانکہ مکہ و مدینہ اور دیگر قبائل عرب میں حضور کے دشمنوں اور دین کے بدخواہوں کی کمی نہ تھی۔ ان کی اذیت رسانیاں، دلآزاریاں اور اسلام کو بحیثیت دین ناکام کرنے کی کوششیں ابولہب کی سازشوں سے سے کسی طرح کم نہ تھیں۔ پھر اس کی کیا خصوصیت ہے جس کے باعث اس کا نام لے کر اس کی گو شمالی کی گئی۔
جہاں محبت کی توقع ہو وہاں سے اگر نفرت وعادت کا لاوا پھوٹ نکلے۔ جہاں سے تائید واعانت کی امید ہو، وہاں سے مخاصمت کا طوفان امڈنے لگے تو یقیناً یہ چیز بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ابو لہب حضور کا حقیق چچا تھا۔ حضرت عبداللہ اور ابو لہب دونوں حقیقی بھائی تھے اس سے بجا طور پر یہ امید کی جاسکتی تھی کہ وہ اپنے سگے بھائی کے یتیم بیٹے کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہوگا اور اس کی تائید ونصرت میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں کرے گا۔ نیز یہ بنی ہاشم کا رئیس تھا۔ عرب کا وہ معاشرہ جس میں ہادیئ برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اس میں ہر قسم کی مرکزیت قبیلہ کو حاصل تھی۔ قبیلہ کے ہر فرد کی امداد کرنا اس قبیلہ کے سردار کی اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری تھی۔ اگر وہ فرد ظالم بھی ہوتا تو مظلوم کی مدد کے بجائے قبیلہ کے سارے افراد اپنے ظالم بھائی کی مدد کرنا ضروری سمجھتے۔ ابولہب بنی ہاشم کا رئیس تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہاشمی تھے۔ اس کا یہ فرض اولین تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ایک باکال فرد کی دعوت کو قبول کرتا اور دعوت کو کامیاب بنانے کے لیے اپنے سارے وسائل داؤ پر لگا دیتا۔
خونی اور خاندانی قریبی تعلقات کے علاوہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پڑوسی تھا۔ دونوں مکانوں میں صرف ایک دیوار حائل تھی۔ پڑوسی کا حق دنیا کے ہر معاشرہ میں مسلم ہے۔ نیز ہمسائیگی کے باعث وہ حضور کے ذاتی اور عائلی ایسے حالات کو بھی جانتا تھا جن سے عموما دوسرے لوگ واقف نہیں ہوتے۔ ایسی پاکیزہ زندگی، ایسی من موہنی سیرت، ایسے بےداغ کردار کا مشاہدہ شب وروز کرتا اور پھر بھی اس مرقع زیبائی ورعنائی پر کیچڑ اچھالنے سے باز نہ آتاتھا۔ پھر جس شدت اور خست سے وہ اپنی عداوت کا مظاہرہ کیا کرتا، اس کی بھی نظیر مشکل سے ہی ملے گی۔ حضور اپنے گھر میں جب مصروف عبادت ہوتے تو وہ مردہ جانوروں کے بدبودار اوجھ، گلی سڑی آنتیں اٹھا کر لاتا اور حضور پر پھینک دیتا۔ گھر کے آنگن میں کوڑا کرکٹ ڈالنا اور جہاں ہنڈیا پک رہی ہوتی وہاں غلاظت پھینکنا اس کا روز مرہ کا معمول تھا۔ صرف اسی پر بس نہیں، اس کی بخت بیوی امارت و وجاہت کے باوجود خود جنگل میں جاتی اور خاردار ٹہنیاں چنتی، ان کا گٹھا اپنے سر پر اٹھا کر لاتی اور رات کے وقت حضور کی راہ میں ڈال دیتی تاکہ آخر شب جب حضور حرم کی طرف تشریف لے جائی، تو آپ کے نرم ونازک پاؤں میں کوئی کانٹا ہی چبھ جائے۔
اعلان نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیاں، اس کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کے ساتھ بیاہی گئی تھیں، جب سرور عالم نے اسلام کی تبلیغ شروع کی تو اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو بلایا اور واشگاف الفاظ میں بھی کہا کہ اگر تم ان کی بیٹیوں کو طلاق نہیں دو گے تو تمہاری میری بول چال، لین دین، آنا جانا قطعاً بند ہوجائے گا۔ تم میرا منہ بھی نہ دیکھ سکو گے۔ چنانچہ دونوں نے حضور کی صاحبزادیوں کو طلاق دے دی اور عتیبہ نے اپنے خبث باطن کا کچھ زیادہ ہی مظاہرہ کیا۔ کہنے لگا میں والنجم اذا ھوی کے رب سے کفر کرتا ہوں۔ اس ناپاک نے روئے انور پر تھوکنے کی جسارت کی جو لوٹ کر اسی کے قبیح منہ پر آ پڑی۔ حضور کی زبان سے نکلا۔ الٰہی اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس ناہنجار پر مقرر فرما دے۔ چنانچہ ایک سفر میں ایک شیر نے اسے پھاڑ ڈالا، لیکن نہ اس کا ناپاک خون پیا اور نہ اس کے پلید گوشت کو کھایا۔
ابو لہب کی بدباطنی کا ایک اور واقعہ دیکھیے کہ نبوت کے ساتویں سال کفار مکہ نے حضور کے ساتھ اور حضور کے سارے خاندان بنی ہاشم اور بنی مطلب کے ساتھ مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا تو بنی ہاشم اور بنی مطلب کے وہ افراد بھی جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ محض قبائلی عصبیت کے باعث شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے، لیکن ابولہب نے ہاشمی ہوتے ہوئے حضور کی مخالفت کی اور اس بائیکاٹ میں کفار مکہ کا ساتھ دیا۔
دین اسلام اور رسول اسلام سے اس کا بغض وعناد اتنا شدید تھا کہ وہ ہر وقت حضور کے پیچھے لگا رہتا اور حضور کی تکذیب کرتا۔ حضور کا یہ معمول تھا کہ جہاں کہیں تجارتی بازار لگتے یا لوگوں کا اجتماع ہوتا وہاں تشریف لے جاتے اور حاضرین کو توحید کی دعوت دیتے۔ یہ کمبخت ہر ایسے موقع پر پہنچ جاتا اور چلا چلا کر لوگوں کو کہتا کہ اے لوگو! یہ میرا بھتیجا ہے، یہ دیوانہ ہوگیا ہے، اس کے قریب مت جانا۔ اس کی بات ہرگز نہ سننا ورنہ گمراہ ہو جاؤگے۔ الغرض اس سے اسلام کی تائید و نصرت کی جتنی توقعات وابستہ کی جاسکتی تھیں، وہ ان کے برعکس اتنی شدت سے ہی اسلام کی مخالفت میں سرگرم رہا کرتا۔ عداوت و مخالفت میں اس کا بڑا نمایاں کردار تھا جو ایک انفرادی حیثیت کا مالک تھا۔
اس سورہ کے مطالعہ سے اس امر کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بارگاہ رسالت میں معمولی سی گستاخی سے جبین قدرت پر کس طرح شکن پڑ جاتے ہیں۔ غضب خداوندی کے شعلے کس طرح بھڑکنے لگتے ہیں اس بدنصیب نے تو ایک انگلی اٹھا کر اشارہ کیا اور نازیبا الفاظ بکے۔ اس کے جواب میں رحمت عالم نے تو اسی حلم اور عفوودرگزر کا ثبوت دیا جو آپ کی شایان شان تھا لیکن غیر خداوندی جوش میں آگئی اور تبت یدا ابی لہب فر ما کر ہر بےادب اور ہر گستاخ کو صاف صاف بتادیا کہ اگر تم سے کوئی ایسا لفظ یا فعل صادر ہوا جس سے میرے حبیب کی شان میں بےادبی کا کوئی پہلو نکلے تو یاد رکھو غضبِ الٰہی کی بجلی کوندے گی اور تمہیں جلا کر خاکستر کردے گی۔ عزت بخاری نے کیا خوب فرمایا ہے:
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نف گم کردہ می آید جنید وبایزید ایں جا
1
|
2
|
3
|
4
|
5
|
6
|
7
|
8
|
9
|
10
|
11
|
12
|
13
|
14
|
15
|
16
|
17
|
18
|
19
|
20
|
21
|
22
|
23
|
24
|
25
|
26
|
27
|
28
|
29
|
30
|
31
|
32
|
33
|
34
|
35
|
36
|
37
|
38
|
39
|
40
|
41
|
42
|
43
|
44
|
45
|
46
|
47
|
48
|
49
|
50
|
51
|
52
|
53
|
54
|
55
|
56
|
57
|
58
|
59
|
60
|
61
|
62
|
63
|
64
|
65
|
66
|
67
|
68
|
69
|
70
|
71
|
72
|
73
|
74
|
75
|
76
|
77
|
78
|
79
|
80
|
81
|
82
|
83
|
84
|
85
|
86
|
87
|
88
|
89
|
90
|
91
|
92
|
93
|
94
|
95
|
96
|
97
|
98
|
99
|
100
|
101
|
102
|
103
|
104
|
105
|
106
|
107
|
108
|
109
|
110
|
111
|
112
|
113
|
114
|