اس سورہ مبارکہ کے کئی نام ہیں۔ اسے سورۂ تودیع یعنی الوداعی سورہ بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اس میں اس امر کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اللہ کا حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے فرائض نبوت کو بحسن وخوبی انجام دینے کے بعد اپنے رب کے حضور میں مراجعت فرما ہونے سے پہلے اپنے جاں نثار غلاموں کو الوداع کہہ رہا ہے۔ اسے سورہ فتح بھی کہتے ہیں، لیکن اس کا مشہوترین نام النصر ہے جو پہلی آیت سے ماخوذ ہے۔ یہ ایک رکوع اور تین آیات پر مشتمل ہے۔ ہجرت کے بعد جو سورتیں نازل ہوئیں انہیں مدنی کہا جاتا ہے خواہ ان کا نزول مدینہ طیبہ میں ہوا ہو یا اثنائے سفر مدینہ سے باہر کسی دوسرے مقام پر۔ ہجرت کے بعد جو سورہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی، اسے بھی مدنی سورتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سورہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی، لیکن ہجرت کے بعد نازل ہوئی اس لیے اسے مدنی ہی کہا جاتاہے۔ علماء کرام نے تصریح فرمائی ہے کہ قرآن کریم کی یہ آخری مکمل سورہ ہے جو سرور عالمیان علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوئی۔
اس سورہ مبارکہ کے کئی نام ہیں۔ اسے سورۂ تودیع یعنی الوداعی سورہ بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اس میں اس امر کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اللہ کا حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے فرائض نبوت کو بحسن وخوبی انجام دینے کے بعد اپنے رب کے حضور میں مراجعت فرما ہونے سے پہلے اپنے جاں نثار غلاموں کو الوداع کہہ رہا ہے۔
اسے سورہ فتح بھی کہتے ہیں، لیکن اس کا مشہوترین نام النصر ہے جو پہلی آیت سے ماخوذ ہے۔ یہ ایک رکوع اور تین آیات پر مشتمل ہے۔ اس کے کلمات کی تعداد انیس ہے اور حروف کی اناسی۔
ہجرت کے بعد جو سورتیں نازل ہوئیں انہیں مدنی کہا جاتا ہے خواہ ان کا نزول مدینہ طیبہ میں ہوا ہو یا اثنائے سفر مدینہ سے باہر کسی دوسرے مقام پر۔ ہجرت کے بعد جو سورہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی، اسے بھی مدنی سورتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سورہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی، لیکن ہجرت کے بعد نازل ہوئی اس لیے اسے مدنی ہی کہا جاتاہے۔ علماء کرام نے تصریح فرمائی ہے کہ قرآن کریم کی یہ آخری مکمل سورہ ہے جو سرور عالمیان علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوئی۔
اس سورہ کے نزول کے وقت کے بارے میں دو قول ہیں: ایک یہ کہ یہ فتح مکہ کے وقت نازل ہوئی۔ یہ وہ ساعت سعید ہے کہ چند سال پہلے جو ہستی یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی تھی اور اس کے ساتھ صرف ایک جاں نثار ابوبکر تھا، آج وہ دس ہزار کے لشکر جرار کو ہمراہ لیے مکہ میں داخل ہورہی ہے۔ اہل مکہ نے اتنا بڑا لشکر آج تک نہیں دیکھا تھا۔ ہر قبیلہ کا اپنا اپنا رسالہ ہے۔ گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہیں۔ جسموں پر آہنی زرہیں اور سروں پر فولادی خود چمک رہے ہیں۔ جوش و خروش کا عجیب عالم ہے۔ جب یہ فوج ظفر موج وادئ بطحا سے گزرتی ہے تو زمین ان کے قدموں کے نیچے لرز جاتی ہے۔ ایک عجیب روح پرور منظر ہے کفر کے سارے دفاعی مورچے پیوند خاک ہوچکے ہیں۔ مخالفت کے طوفان سہم کر رہ گئے ہیں۔ ہر شخص کو اپنے انجام فکر نے حواس باختہ کردیا ہے۔ لیکن اس لشکر کے سپہ سالار نے تاکیدی ہدایات جاری کردی ہیں کہ خون خرابہ سے قطعاً اجتناب کیا جائے۔ کسی پر دست درازی نہ کی جائے۔ تلواریں میانوں میں، تیر ترکشوں میں، کمانیں کندھوں سے آویزاں رہیں۔ اس وقت تک کوئی تلوار بےنیام نہ ہو جب تک مکہ والوں کی طرف سے پہل نہ ہو۔ اعلان عام کردیا گیا ہے کہ جو حرم میں پناہ لے گا، جو گھر کے کواڑ بند کردے گا، بلکہ جو ابوسفیان کی حویلی میں داخل ہوجائے گا، سب کو امان ہے۔
مکہ کا فاتح اگر کوئی بادشاہ ہوتا، کوئی ڈکٹیٹر ہوتا، کوئی فوجی جرنیل ہوتا تو آج مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی جاتی، قتل عام کا حکم دے دیا جاتا۔ پل بھر میں کشتوں کے پشتوں لگ جاتے، خون کے دریا بہنے لگتے۔ ہر سو آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوتے، لیکن ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی تو آج نہیں ہو رہی۔ کیونکہ آج کا فاتح محمد رسول اللہ ہے۔ آج کا فاتح رحمۃ للعلمین کی خلعت فاخرہ پہنے ہوئے ہے۔ آج کا فاتح قیامت تک فاتح بن کر داخل ہونے والوں کے لیے اپنا اسوۂ حسنہ پیش کرنا چاہتا ہے۔ حضور اپنی ناقہ قصوی پر سوار ہیں۔ سر فخر سے تنا ہوا نہیں۔ گردن غرور سے اکڑی ہوئی نہیں، بلکہ سر جھکا ہوا ہے اتنا جھکا ہوا کہ پالان کے سامنے والی لکڑی کو چھو رہا ہے۔ چشم مبارک سے آنسؤوں کی جھڑی لگی ہے۔ ہونٹوں پر اپنے خداوند کریم کی عظمت وکبریائی کے کلمات ہیں۔ دل اپنے رؤف ورحیم پروردگار کے الطاف بےپایاں پر شکر گزار ہے۔ ہر ادا دلنواز ہے۔ ہر نگاہ روح پرور ہے۔ ہر قدم ناز پرامیدوں اور آرزؤں کے چمن آباد ہورہے ہیں۔ اس وقت جبریل امین یہ مبارک سورہ لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوتے ہیں اور فتح وکامرانی کی تقریب منانے کا الٰہی منشور پیش کرتے ہیں۔
دیگر روایات کے مطابق یہ سورہ حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی۔ منی کا میدان قدسی صفات بندوں کے پرنور چہروں اور ضیا بار پیشانیوں کے باعث نور علی نور ہے۔ تہلیل و تسبیح کی دلنواز صدائیں ہر گوشہ سے بلند ہورہی ہیں۔ شرک وبت پرستی کے وطن میں آج توحید کا بابرکت پرچم نصب کیا جارہا ہے۔ سارا جزیرۂ عرب اسلام قبول کرچکا ہے۔ عناد وفساد کی آخری چنگاری بھی بجھ گئی ہے۔ انسانیت کا ہادئ برحق اور مرشد کامل اپنے خالق کا محبوب بندہ اور برگزیدہ رسول اپنی ناقہ پر سوار ہو کر اپنا تاریخ ساز خطبہ ارشاد فرما رہا ہے۔ بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی اخلاقی ضابطوں اور فلاح دارین کے اصول بیان کر رہا ہے۔ اس وقت یہ سورہ نازل ہوتی ہے جس میں فتح وکامرانی کی حالت میں جن آداب کی پابندی ضرور ہے ان کی وضاحت کی جارہی ہے۔
1
|
2
|
3
|
4
|
5
|
6
|
7
|
8
|
9
|
10
|
11
|
12
|
13
|
14
|
15
|
16
|
17
|
18
|
19
|
20
|
21
|
22
|
23
|
24
|
25
|
26
|
27
|
28
|
29
|
30
|
31
|
32
|
33
|
34
|
35
|
36
|
37
|
38
|
39
|
40
|
41
|
42
|
43
|
44
|
45
|
46
|
47
|
48
|
49
|
50
|
51
|
52
|
53
|
54
|
55
|
56
|
57
|
58
|
59
|
60
|
61
|
62
|
63
|
64
|
65
|
66
|
67
|
68
|
69
|
70
|
71
|
72
|
73
|
74
|
75
|
76
|
77
|
78
|
79
|
80
|
81
|
82
|
83
|
84
|
85
|
86
|
87
|
88
|
89
|
90
|
91
|
92
|
93
|
94
|
95
|
96
|
97
|
98
|
99
|
100
|
101
|
102
|
103
|
104
|
105
|
106
|
107
|
108
|
109
|
110
|
111
|
112
|
113
|
114
|